ہوا روشن دم خورشید سے پھر رنگ پانی کا
دمک اٹھا ہے میرے آئنہ پر زنگ پانی کا
مقید رنگ کھلتے ہوں کسی بلور سے جیسے
کھلا اس طرح میرے خواب پر ارژنگ پانی کا
کسی انجان خوشبو سے طبیعت سیر ہے اس کی
اگرچہ قافیہ کچھ روز سے ہے تنگ پانی کا
ستاتا ہے جو دشت نامرادی کے اسیروں کو
وہ تارا اس حسیں کے سامنے ہے دنگ پانی کا
بہت ہی یاد آتا ہے کوئی بچھڑا ہوا مجھ کو
کبھی جب سامنا کرتا ہوں شوخ و شنگ پانی کا
ابھی فرصت نہیں ہے کار دنیا میں الجھنے کی
مگر تبدیل کر سکتا ہوں میں بھی ڈھنگ پانی کا
بہت دن سے میں ساجدؔ درمیاں ہوں اپنے پیاروں کے
کہ ٹھنڈا پڑ چکا ہے اب محاذ جنگ پانی کا
غزل
ہوا روشن دم خورشید سے پھر رنگ پانی کا
غلام حسین ساجد