ہوا کرے اگر اس کو کوئی گلہ ہوگا
زباں کھلی ہے تو پھر کچھ تو فیصلہ ہوگا
کبھی کبھی تو یہ دل میں سوال اٹھتا ہے
کہ اس جدائی میں کیا اس نے پا لیا ہوگا
وہ گرم گرم نفس کیسے ٹھہرتے ہوں گے
اب ان شبوں کو وہ کیسے گزارتا ہوگا
کبھی جو گزروں ترے شہر سے تو سوچتا ہوں
کہ اس زمین پہ کیا کیا قدم پڑا ہوگا
خوشا وہ رونق ہنگامۂ وصال اب تو
یقین ہی نہیں آتا کہ یوں ہوا ہوگا
وہ کھوئی کھوئی وفاؤں کا بھولا بسرا گیت
کبھی تو اس کے شبستاں میں بھی گیا ہوگا
نکل پڑے تھے یوں ہی ہم تو ایک دن گھر سے
کسے خبر تھی کہ یوں تم سے سامنا ہوگا
تری برات میں دن بھر یہی خیال رہا
کہ اس خوشی کا اثر تیرے دل پہ کیا ہوگا
کبھی اٹھے ہی نہیں ہم تلاش کو ورنہ
کوئی تو شہر میں اپنا بھی آشنا ہوگا
یہ ہولناک خموشی جدائی کا آشوب
میں سوچتا ہوں کہ یوں ہی رہا تو کیا ہوگا
پھر آج شام سے ہی ذہن کو فراغت ہے
پھر آج شب وہی یادوں کا سلسلہ ہوگا
کس آرزو میں اٹھے کس طرح چلے انجمؔ
اس آدھی رات میں اب کس کا در کھلا ہوگا
غزل
ہوا کرے اگر اس کو کوئی گلہ ہوگا
انور انجم