EN हिंदी
ہوا کرے اگر اس کو کوئی گلہ ہوگا | شیح شیری
hua kare agar usko koi gila hoga

غزل

ہوا کرے اگر اس کو کوئی گلہ ہوگا

انور انجم

;

ہوا کرے اگر اس کو کوئی گلہ ہوگا
زباں کھلی ہے تو پھر کچھ تو فیصلہ ہوگا

کبھی کبھی تو یہ دل میں سوال اٹھتا ہے
کہ اس جدائی میں کیا اس نے پا لیا ہوگا

وہ گرم گرم نفس کیسے ٹھہرتے ہوں گے
اب ان شبوں کو وہ کیسے گزارتا ہوگا

کبھی جو گزروں ترے شہر سے تو سوچتا ہوں
کہ اس زمین پہ کیا کیا قدم پڑا ہوگا

خوشا وہ رونق ہنگامۂ وصال اب تو
یقین ہی نہیں آتا کہ یوں ہوا ہوگا

وہ کھوئی کھوئی وفاؤں کا بھولا بسرا گیت
کبھی تو اس کے شبستاں میں بھی گیا ہوگا

نکل پڑے تھے یوں ہی ہم تو ایک دن گھر سے
کسے خبر تھی کہ یوں تم سے سامنا ہوگا

کبھی اٹھے ہی نہیں ہم تلاش کو ورنہ
کوئی تو شہر میں اپنا بھی آشنا ہوگا

یہ ہولناک خموشی جدائی کا آشوب
میں سوچتا ہوں کہ یوں ہی رہا تو کیا ہوگا

کس آرزو میں اٹھے کس طرف چلے انجمؔ
اس آدھی رات میں اب کس کا در کھلا ہوگا