EN हिंदी
ہوا ہے زیر زمیں آسماں عجیب سا کچھ | شیح شیری
hua hai zer-e-zamin aasman ajib sa kuchh

غزل

ہوا ہے زیر زمیں آسماں عجیب سا کچھ

کرشن کمار طورؔ

;

ہوا ہے زیر زمیں آسماں عجیب سا کچھ
میں جس میں رہتا ہوں وہ ہے مکاں عجیب سا کچھ

فلک سے آتا ہے رقعہ ہمارے ہونے کا
ہے اپنے ماتھے پہ روشن نشاں عجیب سا کچھ

کہاں کا وصل بھلا اور کہاں کی حسرت وصل
ہر ایک لمحہ ہوا بے اماں عجیب سا کچھ

انا کی جس سے تھی امید وہ ہے ننگ انا
جسے تھا ہونا وہی ہے یہاں عجیب سا کچھ

کہاں میں ہوتا ہوں آمادہ کہنے سننے پر
لہو سے میری رگوں میں رواں عجیب سا کچھ

میں جبر اپنی طبیعت پہ جب بھی کرتا ہوں
دکھائی دیتا ہے مجھ کو جہاں عجیب سا کچھ

ہے تیرے شعروں میں کچھ ایسی خوش گمانی طورؔ
بیان حسن ہے حسن بیاں عجیب سا کچھ