ہوا چلی تو نشہ چھا گیا فضاؤں میں
خیال ڈوب گیا دور کی صداؤں میں
نہ ہاتھ آئے مرے دوڑتے ہوئے لمحے
سفر کٹا ہے مرا بادلوں کی چھاؤں میں
میں اپنے شہر کے نقش و نگار بھول گیا
کسی نے لوٹ لیا مجھ کو چاٹ گاؤں میں
نہ عشق کی کوئی منزل نہ حسن کا کوئی طور
یہ آگ کیسے گرفتار ہو وفاؤں میں
یہ فاصلوں کے سرابوں سے سیر ہو نہ سکے
نہ جانے تشنگی کتنی ہے میرے پاؤں میں
قدم قدم پہ مجھے سجدہ گہ نظر آئے
گھرا ہوا ہوں میں بندوں میں یا خداؤں میں
اسے بھی گاہے بگاہے نگاہ میں رکھنا
جمیلؔ بھی تو ہے تیرے غزل سراؤں میں
غزل
ہوا چلی تو نشہ چھا گیا فضاؤں میں
جمیل یوسف