ہوا چلی تو مرے جسم نے کہا مجھ کو
اکیلا چھوڑ کے تو بھی کہاں چلا مجھ کو
میں کب سے ڈھونڈھتا پھرتا ہوں اپنی قسمت کو
یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے ذرا دکھا مجھ کو
دہکتی جلتی ہوئی دوپہر ملی لیکن
کسی درخت کا سایا نہ مل سکا مجھ کو
میں اپنے روم کی بتی جلائے بیٹھا ہوں
ارے یہ شام سے پہلے ہی کیا ہوا مجھ کو
بلا کے شور میں ڈوبی ہوئی صدا ہوں میں
کسی سے کیا کہوں میں نے بھی کب سنا مجھ کو
وہ کوئی اور ہے علویؔ جو شعر کہتا ہے
تم اس کے جرم کی دیتے ہو کیوں سزا مجھ کو
غزل
ہوا چلی تو مرے جسم نے کہا مجھ کو
محمد علوی