ہوتے ہوں گے اس دنیا میں عرش کے دعویدار بلند
پستی کے ہم رہنے والے نکلے آخر کار بلند
ایک طرف ہو تم افسردہ ایک طرف ہم آزردہ
اور چمن کو بانٹو یارو اور کرو دیوار بلند
کب ضد کی ہے ہم نے تم سے اپنی اونچی ہستی کی
کیسی بحث تقاضا کیسا تم ہو ہم سے یار بلند
لے آئی مجبوری ہم کو آج پرائی محفل میں
اور تماشہ دیکھ رہے ہیں ہو ہو کر اغیار بلند
شاعر اور تکبر میں کیا رشتہ ان میں نسبت کیا
شہر سخن میں رکھیے اپنے سر کو خم معیار بلند
عزت افزائی ہے بے شک بات مقدر کی انعامؔ
ورنہ قدرت نے رکھے ہیں پھولوں سے بھی خار بلند
غزل
ہوتے ہوں گے اس دنیا میں عرش کے دعویدار بلند
انعام حنفی