ہوتے ہیں خوش کسی کی ستم رانیوں سے ہم
وقف بلا ہیں اپنی ہی نادانیوں سے ہم
کس منہ سے جا کے شکوۂ جور و جفا کریں
مرتے ہیں اور ان کی پشیمانیوں سے ہم
میراث دشت و کوہ میں فرہاد و قیس کی
الفت کو پوچھتے ہیں بیابانیوں سے ہم
گھر بیٹھے سیر ہوتی ہے ارض و سما کی روز
محو سفر ہیں طبع کی جولانیوں سے ہم
کیوں کر بغیر جلوۂ حیرت طراز حسن
پائیں نجات دل کی پریشانیوں سے ہم
اے بانیٔ جفا ترا احساں ہے اس میں کیا
جیتے ہیں گر تو اپنی گراں جانیوں سے ہم
غزل
ہوتے ہیں خوش کسی کی ستم رانیوں سے ہم
تلوک چند محروم