EN हिंदी
ہوتے ہیں خوش کسی کی ستم رانیوں سے ہم | شیح شیری
hote hain KHush kisi ki sitam-raniyon se hum

غزل

ہوتے ہیں خوش کسی کی ستم رانیوں سے ہم

تلوک چند محروم

;

ہوتے ہیں خوش کسی کی ستم رانیوں سے ہم
وقف بلا ہیں اپنی ہی نادانیوں سے ہم

کس منہ سے جا کے شکوۂ جور و جفا کریں
مرتے ہیں اور ان کی پشیمانیوں سے ہم

میراث دشت و کوہ میں فرہاد و قیس کی
الفت کو پوچھتے ہیں بیابانیوں سے ہم

گھر بیٹھے سیر ہوتی ہے ارض و سما کی روز
محو سفر ہیں طبع کی جولانیوں سے ہم

کیوں کر بغیر جلوۂ حیرت طراز حسن
پائیں نجات دل کی پریشانیوں سے ہم

اے بانیٔ جفا ترا احساں ہے اس میں کیا
جیتے ہیں گر تو اپنی گراں جانیوں سے ہم