EN हिंदी
ہوتے ہیں ختم اب یہ لمحات زندگی کے | شیح شیری
hote hain KHatm ab ye lamhat zindagi ke

غزل

ہوتے ہیں ختم اب یہ لمحات زندگی کے

رفعت سیٹھی

;

ہوتے ہیں ختم اب یہ لمحات زندگی کے
مہمان ہیں جہاں میں ہم اور دو گھڑی کے

اے بے نیاز میرا سجدہ قبول کر لے
میں جانتا نہیں ہوں آداب بندگی کے

سانسوں کے تار تم نے غفلت سے توڑ ڈالے
نغمے سنو گے اب کیوں کر ساز زندگی کے

اب خیریت نہیں ہے تنظیم دو جہاں کی
تیور بتا رہے ہیں اس بت کی خود سری کے

رعنائیوں پہ اپنی نازاں نہ ہوں بہاریں
انجام غم نہاں ہے آغاز میں خوشی کے

ہنسنا تھا چار دن کا رونا ہے عمر بھر کا
دستور میں نرالے دنیائے عاشقی کے

عمر عزیز کا جب انجام کھل چکا ہے
رونے سے فائدہ کیا بدلے میں اب ہنسی کے

ہم نے رہ وفا میں لٹ کر قدم قدم پر
چھینے ہیں رہزنوں سے اطوار رہزنی کے

جب تک نہ آزمائیں مشکل ہے یہ بتانا
دنیا میں کون رفعتؔ قابل ہے دوستی کے