ہوش ساقی کو نہ خم کا ہے نہ پیمانے کا
اس طرح حال یہ ابتر ہوا میخانے کا
شدت غم سے نکل ہی پڑے آخر آنسو
شمع سے سوز نہ دیکھا گیا پروانے کا
جاں بحق ہو گیا ہوتا یہ کبھی کا بیمار
گر یقیں ہوتا نہ اس شوخ کے آ جانے کا
دیر بنتا ہے حرم اور حرم دیر کبھی
کعبہ کہتے ہیں جسے نام ہے بت خانے کا
طوق و زنجیر میں باندھے نہ بندھے گا ہرگز
بڑھ گیا اور جنوں گر ترے دیوانے کا
وہ پس مرگ اب آئے ہیں عیادت کو مری
جبکہ دنیا میں ہے شہرا مرے مر جانے کا
کس قدر شوقؔ حسینوں کے کھنچے ہیں نقشے
دل کے ہر ذرہ میں عالم ہے پری خانے کا
غزل
ہوش ساقی کو نہ خم کا ہے نہ پیمانے کا
شوق بجنوری