ہوش و خرد کو کر دیا ترک اور شغل جو کچھ تھا چھوڑ دیا
ہم نے تمہاری چاہ میں اے جاں دیکھو تو کیا کیا چھوڑ دیا
کوچے میں اس رشک چمن کے جا کے جو بیٹھا پھر اس نے
باغ و چمن یاں جتنے ہیں سب کا سیر و تماشا چھوڑ دیا
لوٹا ہوش اور لوٹا دیں کو دل کو بھی کچلا کیا کیا واہ
ناز کو اس نے آج تو کچھ بیداد پر ایسا چھوڑ دیا
دن کو ہمارے پاس وہ چنچل کاہے کو آوے گا اے دل
رات کو اک دم خواب میں آنا جس نے ادھر کا چھوڑ دیا
طائر دل جب ہم سے گیا پھر فائدہ کیا جو پوچھیں نظیرؔ
شوخ نے اس کو ذبح کیا یا قید رکھا یا چھوڑ دیا
غزل
ہوش و خرد کو کر دیا ترک اور شغل جو کچھ تھا چھوڑ دیا
نظیر اکبرآبادی