EN हिंदी
ہوش میں آؤں تو سوچوں ابھی دیکھا کیا ہے | شیح شیری
hosh mein aaun to sochun abhi dekha kya hai

غزل

ہوش میں آؤں تو سوچوں ابھی دیکھا کیا ہے

احسان اکبر

;

ہوش میں آؤں تو سوچوں ابھی دیکھا کیا ہے
پھر یہ پوچھوں کہ یہ پردا ہے تو جلوہ کیا ہے

دونوں آنکھوں میں ہے اک جلوہ تو دو آنکھیں کیوں
پتلیوں کا یہ تماشا سا وگر نہ کیا ہے

تو نے پہچان لئے اپنی خدائی کے نقوش
آئینہ جس نے تعارف یہ کرایا کیا ہے

زندگی بھر پڑھی تقدیر کی خفیہ تحریر
لوح مرقد سے پڑھوں آگے کا لکھا کیا ہے

میں ہوں تخلیق تری سوز کا ہم معنی ہوں
تو ہے معنی تو ترا لفظ سے رشتہ کیا ہے

ہر نفس پیٹ کا ایندھن ہے یہاں پر اے فن
ہے جو حاصل ترا دنیا ہی تو دنیا کیا ہے