ہوش میں آؤں تو سوچوں ابھی دیکھا کیا ہے
پھر یہ پوچھوں کہ یہ پردا ہے تو جلوہ کیا ہے
دونوں آنکھوں میں ہے اک جلوہ تو دو آنکھیں کیوں
پتلیوں کا یہ تماشا سا وگر نہ کیا ہے
تو نے پہچان لئے اپنی خدائی کے نقوش
آئینہ جس نے تعارف یہ کرایا کیا ہے
زندگی بھر پڑھی تقدیر کی خفیہ تحریر
لوح مرقد سے پڑھوں آگے کا لکھا کیا ہے
میں ہوں تخلیق تری سوز کا ہم معنی ہوں
تو ہے معنی تو ترا لفظ سے رشتہ کیا ہے
ہر نفس پیٹ کا ایندھن ہے یہاں پر اے فن
ہے جو حاصل ترا دنیا ہی تو دنیا کیا ہے

غزل
ہوش میں آؤں تو سوچوں ابھی دیکھا کیا ہے
احسان اکبر