EN हिंदी
ہوش جس وقت بھی آئے گا گرفتاروں کو | شیح شیری
hosh jis waqt bhi aaega giraftaron ko

غزل

ہوش جس وقت بھی آئے گا گرفتاروں کو

عرفان پربھنوی

;

ہوش جس وقت بھی آئے گا گرفتاروں کو
خس کی مانند اڑا ڈالیں گے دیواروں کو

زندگی کرنی ہے تم کو تو تڑپنا سیکھو
زنگ لگ جاتا ہے رکھی ہوئی تلواروں کو

زخم سینے پہ کسی کے نہیں آیا اب تک
آزمایا ہے بہت قوم کے سرداروں کو

اتنے اونچے بھی نہ اٹھو کہ سنبھل بھی نہ سکو
ہم نے گرتے ہوئے دیکھا کئی میناروں کو

بزدلی ہے کہ یہ نادانی ہے آخر کیا ہے
لوگ اشکوں سے بجھانے لگے انگاروں کو

وہی رشوت وہی اغوا وہی خبریں عرفاںؔ
ہم تو بن دیکھے ہی پڑھ لیتے ہیں اخباروں کو