ہوش جس وقت بھی آئے گا گرفتاروں کو
خس کی مانند اڑا ڈالیں گے دیواروں کو
زندگی کرنی ہے تم کو تو تڑپنا سیکھو
زنگ لگ جاتا ہے رکھی ہوئی تلواروں کو
زخم سینے پہ کسی کے نہیں آیا اب تک
آزمایا ہے بہت قوم کے سرداروں کو
اتنے اونچے بھی نہ اٹھو کہ سنبھل بھی نہ سکو
ہم نے گرتے ہوئے دیکھا کئی میناروں کو
بزدلی ہے کہ یہ نادانی ہے آخر کیا ہے
لوگ اشکوں سے بجھانے لگے انگاروں کو
وہی رشوت وہی اغوا وہی خبریں عرفاںؔ
ہم تو بن دیکھے ہی پڑھ لیتے ہیں اخباروں کو

غزل
ہوش جس وقت بھی آئے گا گرفتاروں کو
عرفان پربھنوی