ہونٹ مصروف دعا آنکھ سوالی کیوں ہے
دل کے مانند مرا ذہن بھی خالی کیوں ہے
وہ تو ناراض ہے مجھ سے تو پھر آخر اس نے
مسکراہٹ سی مری سمت اچھالی کیوں ہے
اس کو حیرت مرے شعروں پہ نہیں اس پر ہے
میرے شانے پہ جو چادر ہے وہ کالی کیوں ہے
وہ بھی کیا دن تھے تری سوچ کو چھو سکتا تھا
اب ترا عکس فقط عکس خیالی کیوں ہے
کیا بتاؤگے کہ ہم میں سے وفا کس نے کی
تم نے محفل میں مری بات نکالی کیوں ہے
اس ارادے سے میں بیٹھا تھا غزل لکھنے کو
سوچتا ہوں تری تصویر بنا لی کیوں ہے
اب میں جانے نہیں دیتا تو برا مانتی ہو
اس قدر پیار کی عادت مجھے ڈالی کیوں ہے

غزل
ہونٹ مصروف دعا آنکھ سوالی کیوں ہے
وجیہ ثانی