ہونکتے دشت میں اک غم کا سمندر دیکھو
تم کسی روز اگر دل میں اتر کر دیکھو
نکلو سڑکوں پہ تو ہنستی ہوئی لاشوں سے ملو
بند آنکھیں جو کرو قتل کا منظر دیکھو
آنچ قربت کی نہ پگھلا دے کہیں تار نظر
شعلۂ حسن کو کچھ دور سے بچ کر دیکھو
یہ تو کہتے ہو کہ خود میں نے کٹائی گردن
کوئی ہاتھوں میں ہوا کے بھی تو خنجر دیکھو
آستینیں تو کہیں چپکے سے دھو لو یارو
ہو کسی کو نہ شبہ قتل کا تم پر دیکھو
در و دیوار سے اٹھتے ہیں یہ شعلے کیسے
دوستو چل کے ذرا گھر کے تو اندر دیکھو
ہڈیاں گل چکیں اب تو نہ اکھیڑو ان کو
ڈھونڈ لیں پھر یہ نیا کوئی نہ پیکر دیکھو
میں بھی اس صفحۂ ہستی پہ ابھر سکتا ہوں
رنگ تو تم مری تصویر میں بھر کر دیکھو
اب تو کھلتی ہوئی کلیوں میں نہ ڈھونڈو مجھ کو
راکھ ہوتے ہوئے اک شعلے کا منظر دیکھو
پھینک دو ٹوٹی امیدوں کے یہ ٹکڑے باہر
دل میں رہ جائے کرچ کوئی نہ گڑ کر دیکھو
لیے آئینہ وفاؤں کا کہاں پھرتے ہو
ہوں نہ ہاتھوں میں کہیں اندھوں کے پتھر دیکھو
ایک مدت سے ہے لوگوں کو نعیمیؔ کی تلاش
قصر تنہائی کی دیواریں گرا کر دیکھو
غزل
ہونکتے دشت میں اک غم کا سمندر دیکھو
عبد الحفیظ نعیمی