ہونے سے مرے فرق ہی پڑتا تھا بھلا کیا
میں آج نہ جاگا تو سویرا نہ ہوا کیا
سب بھیگی رتیں نیند کے اس پار ہیں شاید
لگتی ہے ذرا آنکھ تو آتی ہے ہوا کیا
ہم کھوج میں جس کی ہیں پریشان ازل سے
بیمار کی آنکھوں نے وہ در ڈھونڈ لیا کیا
مقتول کو بانہوں میں لیے بیٹھا رہوں کیوں
اس جرم سے لینا ہے اسے اور مزہ کیا
دیوار قفس کی ہو کہ گھر کی مجھے کیا فرق
تفریح کے ساماں ہوں میسر تو سزا کیا
ایسا تو کبھی رقص میں بے خود نہ ہوا میں
مے خانہ کے ماحول میں ہوتا ہے نشہ کیا
یہ دھوپ کی تیزی یہ سرابوں کی سجاوٹ
صحرا نے جنوں کو مرے پہچان لیا کیا
غزل
ہونے سے مرے فرق ہی پڑتا تھا بھلا کیا
شارق کیفی