ہونے لگے ہیں رستے رستے، آپس کے ٹکراؤ بہت
ایک ساتھ کے چلنے والوں میں بھی ہے الگاؤ بہت
بہکے بہکے سے بادل ہیں کیا جانے یہ جائیں کدھر
بدلی ہوئی ہواؤں کا ہے ان پر آج دباؤ بہت
سوچ کا ہے یہ پھیر کہ یارو پیچ و خم کی دنیا میں
ڈھونڈ رہے ہو ایسا رستہ جس میں نہیں گھماؤ بہت
اپنے آپ میں الجھی ہوئی اک دنیا ہے ہر شخص یہاں
سلجھے ہوئے ذہنوں میں بھی ہیں چھپے ہوئے الجھاؤ بہت
میرے عہد کے انسانوں کو پڑھ لینا کوئی کھیل نہیں
اوپر سے ہے میل محبت، اندر سے ہے کھنچاؤ بہت
غزل
ہونے لگے ہیں رستے رستے، آپس کے ٹکراؤ بہت
قیصر شمیم