EN हिंदी
ہونا ہی کیا ضرور تھے یہ دو جہاں ہیں کیوں | شیح شیری
hona hi kya zarur the ye do-jahan hain kyun

غزل

ہونا ہی کیا ضرور تھے یہ دو جہاں ہیں کیوں

بہزاد لکھنوی

;

ہونا ہی کیا ضرور تھے یہ دو جہاں ہیں کیوں
اللہ اک فریب میں کون و مکاں ہیں کیوں

سنتے ہیں ایک درد تو اٹھتا ہے بار بار
اس کی خبر نہیں ہے کہ آنسو رواں ہیں کیوں

ان بے نیازیوں میں بھی شان نیاز ہے
سجدے نہیں پسند تو پھر آستاں ہیں کیوں

جس گلستاں میں روز تڑپتی ہیں بجلیاں
یا رب اسی چمن میں یہ پھر آشیاں ہیں کیوں

اس کا ہمیں ملال ہے ہم کیوں بدل گئے
اس کا نہیں ملال کہ وہ بد گماں ہیں کیوں

جب دل نہیں رہا تو تمنا کا کام کیا
جب کارواں نہیں تو پس کارواں ہیں کیوں

بہزادؔ ان کے ہجر میں گھبرا رہا ہے دل
اب کیا کہیں کسی سے کہ بس خانماں ہیں کیوں