ہوں تم کو مبارک لعل و گہر ہم لے کے یہ دولت کیا کرتے
ہر شے کو فنا ہونا ہے اگر تو دھن سے محبت کیا کرتے
صد شکر وہ تھے مائل بہ کرم مرعوب تھے رعب حسن سے ہم
ان سے احوال دل پر غم کہنے کی جسارت کیا کرتے
ہم سہتے رہے ظلم اور جفا یہ سوچ کے منہ سے کچھ نہ کہا
ٹلتا ہے کہیں قسمت کا لکھا پھر ان سے شکایت کیا کرتے
ظاہر میں کرم پر مائل ہیں اعدا کی صفوں میں شامل ہیں
اپنے ہی ہمارے قاتل ہیں غیروں سے شکایت کیا کرتے
کیوں ڈر سے نہ ہوتا چہرہ دھول شیشے کا ہمارا جو تھا مکاں
جو سنگ بکف آئے تھے یہاں ہم ان سے بغاوت کیا کرتے
یہ کام تھا بس تم سے ممکن مجبور رہے عاجزؔ ہر چھن
تم نے تو شکایت کی لیکن ہم تم سے شکایت کیا کرتے
غزل
ہوں تم کو مبارک لعل و گہر ہم لے کے یہ دولت کیا کرتے
عاجز ماتوی