ہوگی وہ دل میں جو ٹھانی جائے گی
کیا ہماری بات مانی جائے گی
ڈھل چکی ہے اب جوانی جائے گی
یہ شراب ارغوانی جائے گی
بعد توبہ آتش سیال خم
میرے گھر سے ہو کے پانی جائے گی
خضر یوں ہی گم رہیں گے عمر بھر
یوں ہی عمر جاودانی جائے گی
تیغ ہی کیا ہاتھ میں قاتل کے تھی
اے حنا تو بھی تو سانی جائے گی
آئے تارے ہجر کی شب کچھ نظر
اب بلائے آسمانی جائے گی
عرش پر ہے خوش جمالوں کا مزاج
کیوں کر ان کی لن ترانی جائے گی
خدمت میخانہ کر لے ورنہ شیخ
رائیگاں یہ زندگانی جائے گی
موت سے بد تر بڑھاپا آئے گا
جان سے اچھی جوانی جائے گی
شوخیاں کہتی ہیں کھل کھلیں گے وہ
اب حیا کی پاسبانی جائے گی
آگ بن کر جام میں آئے گی مے
زمزمی میں ہو کے پانی جائے گی
بوسۂ گیسو سے ہیں چیں بہ جبیں
رات بھر کیا سرگرانی جائے گی
بولے سن کر دل کے پامالی کا حال
کس گلی کی خاک چھانی جائے گی
جان سے بڑھ کر اسے رکھتے عزیز
کیا سمجھتے تھے جوانی جائے گی
ساتھ لائے ہیں قفس سے ناتواں
جاتے جاتے ناتوانی جائے گی
نالے کرنا سیکھ لے اے عندلیب
اب یہ طرز نغمہ خوانی جائے گی
شیخ نے مانگی ہے اپنی عمر کی
میکدے سے اب پرانی جائے گی
جا چکے ہیں آپ کل دشمن کے گھر
آج مرگ ناگہانی جائے گی
پینے آئیں تو فرشتہ خو ریاضؔ
حور کے دامن میں چھانی جائے گی
غزل
ہوگی وہ دل میں جو ٹھانی جائے گی
ریاضؔ خیرآبادی