EN हिंदी
ہو ستم کیسا بھی اب حالات کی شمشیر کا | شیح شیری
ho sitam kaisa bhi ab haalat ki shamshir ka

غزل

ہو ستم کیسا بھی اب حالات کی شمشیر کا

عازم کوہلی

;

ہو ستم کیسا بھی اب حالات کی شمشیر کا
وقت بدلے گا کسی دن رخ مری تصویر کا

جان لیوا ہے تمہارا بے نیازی کا چلن
حشر دیکھے ہی بنے گا اب دل دلگیر کا

بیٹھتی ہے کون سی کروٹ یہ بازی عشق کی
گردشوں کے ہاتھ میں ہے فیصلہ تقدیر کا

کون باندھے گا مری بکھری ہوئی امید کو
کھل رہا ہے اب تو ہر حلقہ مری زنجیر کا

لطف لیتے ہو کماں سے چھوڑ کر جس کو اب آپ
کاش کوئی مجھ سے پوچھے کیا ہوا اس تیر کا

ریختہ سے عشق عازمؔ؟ وہ بھی ایسے دور میں
دیکھنا کیا حال ہوتا ہے تری تحریر کا