ہو راہزن کی ہدایت کہ راہبر کے فریب
مری نگاہ نے کھائے نظر نظر کے فریب
یہ بت کدہ یہ کلیسا یہ مسجدیں یہ حرم
یہ سب فریب ہیں اور ایک سنگ در کے فریب
سمجھ رہے تھے کہ اشکوں سے ہوگا دل ہلکا
نہ جانتے تھے کہ ہیں یہ بھی چشم تر کے فریب
پتہ چلا کہ ہر اک گام میں تھی اک منزل
کھلے ہیں منزل مقصود پر سفر کے فریب
انہیں کا نام محبت انہیں کا نام جنوں
مری نگاہ کے دھوکے تری نظر کے فریب
غزل
ہو راہزن کی ہدایت کہ راہبر کے فریب
شوکت تھانوی