EN हिंदी
ہو نہ کچھ بات مگر شور مچائے رکھنا | شیح شیری
ho na kuchh baat magar shor machae rakhna

غزل

ہو نہ کچھ بات مگر شور مچائے رکھنا

جگر جالندھری

;

ہو نہ کچھ بات مگر شور مچائے رکھنا
اس طرح اوروں کو ہمدرد بنائے رکھنا

تم اگر چاہتے ہو سب تمہیں ہنس ہنس کے ملیں
اپنا غم اپنے ہی سینے میں چھپائے رکھنا

دور کرنا نہ کبھی جلووں کو میرے دل سے
اس چمن کو انہیں پھولوں سے سجائے رکھنا

اس سے پر نور ہوا میری تمنا کا دیا
رخ روشن سے یوں ہی پردہ اٹھائے رکھنا

یہ ہمارا ہی کلیجہ ہے کہ تیرے غم کو
دل کی مانند کلیجے سے لگائے رکھنا

یہ ادا ان کی مسیحا بھی ہے قاتل بھی ہے
سامنے آ کے نگاہوں کو جھکائے رکھنا

تم اگر چاہتے ہو کوئی تمنا نہ رہے
ہاتھ ہر ایک تمنا سے اٹھائے رکھنا

در محبوب پہ ہر وقت پڑے رہنا جگرؔ
یعنی اس در کو در کعبہ بنائے رکھنا