ہو نہ کچھ اور اس آغاز کا انجام کہیں
ساقیا لب سے لگا دے تو لب جام کہیں
وہ دل آرام جو پہلو میں نہیں ہے اپنے
دل بیتاب کو آتا نہیں آرام کہیں
صدمہ ہائے شب ہجراں سے گرا جاتا ہوں
اے تمنائے شب وصل مجھے تھام کہیں
شام سے ہوتی ہیں دل پر جو بلائیں نازل
کھول بیٹھے نہ ہوں وہ زلف سیہ فام کہیں
لے تو لوں بوسۂ رخ اس کا یہ ڈر ہے تنویرؔ
ہو نہ جائے وہ خفا شوخ گل انداز کہیں
غزل
ہو نہ کچھ اور اس آغاز کا انجام کہیں
تنویر دہلوی