EN हिंदी
ہو نہ کچھ اور اس آغاز کا انجام کہیں | شیح شیری
ho na kuchh aur is aaghaz ka anjam kahin

غزل

ہو نہ کچھ اور اس آغاز کا انجام کہیں

تنویر دہلوی

;

ہو نہ کچھ اور اس آغاز کا انجام کہیں
ساقیا لب سے لگا دے تو لب جام کہیں

وہ دل آرام جو پہلو میں نہیں ہے اپنے
دل بیتاب کو آتا نہیں آرام کہیں

صدمہ ہائے شب ہجراں سے گرا جاتا ہوں
اے تمنائے شب وصل مجھے تھام کہیں

شام سے ہوتی ہیں دل پر جو بلائیں نازل
کھول بیٹھے نہ ہوں وہ زلف سیہ فام کہیں

لے تو لوں بوسۂ رخ اس کا یہ ڈر ہے تنویرؔ
ہو نہ جائے وہ خفا شوخ گل انداز کہیں