ہو کوئی مسئلہ اپنا دعا پر چھوڑ دیتے ہیں
اسے خود حل نہیں کرنے خدا پر چھوڑ دیتے ہیں
تمہاری یاد کے بادل برستے ہیں کہاں آخر
چلو یہ سلسلہ کالی گھٹا پر چھوڑ دیتے ہیں
اسے سر پر بٹھائے در بدر پھرتے رہیں کب تک
گھٹن کا بوجھ ہم دوش ہوا پر چھوڑ دیتے ہیں
نہ تم مانو گے سچائی نہ ہم سے جھوٹ سنبھلے گا
حقیقت کیا ہے ہم اہل صفا پر چھوڑ دیتے ہیں
کھلیں گے زخم سینے میں کہ جذبوں کی نمو ہوگی
جو کل ہوگا اسے کل کی ادا پر چھوڑ دیتے ہیں
تعلق تم سے جو بھی ہے نہیں معلوم کل کیا ہو
چلو یہ فیصلہ اپنا خدا پر چھوڑ دیتے ہیں
غزل
ہو کوئی مسئلہ اپنا دعا پر چھوڑ دیتے ہیں
صابر رضا