ہو کے آئینہ مقابل بھی رہا رد کہ نہیں
درمیاں آج بھی ہے ہجر کی سرحد کہ نہیں
دلبراں یوں ہی نہ تھی کفر پرستی دل کی
فتنۂ صبح قیامت ہے ترا قد کہ نہیں
ہاں بتا وہم سے کترائے ہوئے حسن یقیں
ننگ تحقیق ہوئی رسم اب و جد کہ نہیں
دل سے اس رشک چراغ حرم و دیر کے بعد
ہے وہی وحشت تاریکیٔ معبد کی نہیں
زندگی آج تلک میری تمنا گہہ میں
تیرے کچھ کام بھی آئی ہے خوشامد کہ نہیں
حیرتیں آپ بھلا بیٹھی تھیں طے کر کے جنہیں
آئنہ خانوں میں رائج ہے وہ ابجد کہ نہیں
عشق میں کون مقابل تھا مرے کس پہ کھلے
منصب قیس کی خواہاں ہے یہ مسند کہ نہیں

غزل
ہو کے آئینہ مقابل بھی رہا رد کہ نہیں
خمار میرزادہ