EN हिंदी
ہو جس قدر کہ تجھ سے اے پر جفا جفا کر | شیح شیری
ho jis qadar ki tujhse ai pur-jafa jafa kar

غزل

ہو جس قدر کہ تجھ سے اے پر جفا جفا کر

ولی اللہ محب

;

ہو جس قدر کہ تجھ سے اے پر جفا جفا کر
کہتا ہوں میں بھی تجھ سے اے با وفا وفا کر

بیت الصنم میں جا کر ہمدم بہ رب کعبہ
لایا ہوں اس صنم کو گھر تک خدا خدا کر

گوہر جو اشک کے ہیں کچھ چشم کے صدف میں
غلطاں نہ خاک میں کر آنسو بہا بہا کر

مرتے ہیں ہم تو لیکن سن تیری آمد آمد
امید نے رکھا ہے اب تک جلا جلا کر

تجھ کو پتنگ اڑاتے دیکھا جو عاشقوں نے
کٹ مر کے بیٹھے اکثر گھر ور لٹا لٹا کر

صد چاک دل کا ہونا ہر صبح دم ہمارا
گل سے تو کہہ رہی ہے بلبل ہنسا ہنسا کر

آتا ہے وہ شرابی کھانے کباب دل کا
کہتا ہے جھوٹی باتیں کیا کیا چبا چبا کر

ساقی معاف رکھو گستاخیاں ہماری
بے خود کیا نشے میں تو نے پلا پلا کر

بوسے کا لکھ کے نسخہ یاقوتیٔ لبوں سے
بیمار عشق تیرا ہے بے دوا دوا کر

ہر صبح چاک ہو ہے ناصح مرا گریباں
ہر شام تو رکھے ہے ناحق سلا سلا کر

اور اک غزل محبؔ کہہ برقول میرؔ صاحب
اوروں سے دے اشارے ہم سے چھپا چھپا کر