EN हिंदी
ہو گیا اب تو خیالوں کا سفر بھی دشوار | شیح شیری
ho gaya ab to KHayalon ka safar bhi dushwar

غزل

ہو گیا اب تو خیالوں کا سفر بھی دشوار

خورشید احمد جامی

;

ہو گیا اب تو خیالوں کا سفر بھی دشوار
دور تک راہ میں ہے خود مری شہرت کا غبار

اپنے خوابوں کو لیے گھر سے نہ باہر نکلو
چار سو شہر میں ہے ناچتے شعلوں کی قطار

بارہا نیند سے یوں چونک اٹھا ہوں جیسے
میرے بستر پہ تری یاد ہوئی ہے بیدار

میں سمجھتا ہوں کہ اب صرف کتب خانوں میں
منہ زمانے سے چھپائے ہوئے بیٹھی ہے بہار

روح کے زخم ابھرتے ہیں سوالوں کی طرح
میں کہیں تیری خدائی سے نہ کر دوں انکار

تیز رو وقت کی آندھی میں کہاں تک آخر
کام آئے گی امیدوں کی یہ کچی دیوار

ایک سیلاب حوادث کا نشاں ہیں جامیؔ
اور کیا ہیں مرے لکھے ہوئے سارے اشعار