ہو گیا اب تو خیالوں کا سفر بھی دشوار
دور تک راہ میں ہے خود مری شہرت کا غبار
اپنے خوابوں کو لیے گھر سے نہ باہر نکلو
چار سو شہر میں ہے ناچتے شعلوں کی قطار
بارہا نیند سے یوں چونک اٹھا ہوں جیسے
میرے بستر پہ تری یاد ہوئی ہے بیدار
میں سمجھتا ہوں کہ اب صرف کتب خانوں میں
منہ زمانے سے چھپائے ہوئے بیٹھی ہے بہار
روح کے زخم ابھرتے ہیں سوالوں کی طرح
میں کہیں تیری خدائی سے نہ کر دوں انکار
تیز رو وقت کی آندھی میں کہاں تک آخر
کام آئے گی امیدوں کی یہ کچی دیوار
ایک سیلاب حوادث کا نشاں ہیں جامیؔ
اور کیا ہیں مرے لکھے ہوئے سارے اشعار
غزل
ہو گیا اب تو خیالوں کا سفر بھی دشوار
خورشید احمد جامی