ہو گئی اپنوں کی ظاہر دشمنی اچھا ہوا
چھوڑ دی ہم نے بھی ان کی دوستی اچھا ہوا
بچ گئے اپنوں کے ہر مشق ستم سے شکر ہے
دوستوں نے ہم کو سمجھا اجنبی اچھا ہوا
جس کو جینے کا ذرا سا بھی نہیں تھا حوصلہ
ڈر کے غم سے مر گیا وہ آدمی اچھا ہوا
جانے میں اور تو کے جھگڑے کیسے سلجھاتے بھی ہم
آ گئی تھی کام اپنی بے خودی اچھا ہوا
شام کے سائے سے بھی ڈرتی رہی جو روشنی
کھا گئی اس روشنی کو تیرگی اچھا ہوا
غم ہی اپنا یار ہے دل سے جدا ہوتا نہیں
چند لمحوں کی خوشی اب جا چکی اچھا ہوا
کون دیتا مجھ کو ان کی بے وفائی کا ثبوت
آپ نے کر دی کہی کو ان کہی اچھا ہوا
مجھ کو دیوانہ سمجھ کر لوگ مجھ سے دور ہیں
مفت میں جو مجھ پہ یہ تہمت لگی اچھا ہوا
اس طرح سے لاج رکھ لی ہم نے اصغرؔ پیار کی
روتے روتے آ گئی لب پر ہنسی اچھا ہوا
غزل
ہو گئی اپنوں کی ظاہر دشمنی اچھا ہوا
اصغر ویلوری