ہو گئے یار پرائے اپنے
جسم اپنے ہیں نہ سائے اپنے
پھیر لیں اس نے بھی نظریں آخر
وقت پر کام نہ آئے اپنے
وہ جو بدلا تو زمانہ بدلا
رنگ دنیا نے دکھائے اپنے
اجنبی لگتی ہے اپنی صورت
ہو گئے نقش پرائے اپنے
کیں شمار اپنی جفائیں اس نے
جرم سب ہم نے گنائے اپنے
ہر گھڑی سوانگ رچایا ہم نے
اس نے سو رنگ دکھائے اپنے
اعتبار آئے بھی کیسے اس کا
بات جو دل کو نہ بھائے اپنے
کیا کہیں محو سفر ہیں کب سے
جسم کا بوجھ اٹھائے اپنے
منتظر بزم سخن تھی خسروؔ
شمع کب سامنے آئے اپنے

غزل
ہو گئے یار پرائے اپنے
فیروز خسرو