ہو گئے مضطر دیکھتے ہی وہ ہلتی زلفیں پھرتی نظر ہم
دیتے ہیں دل اک آفت جاں کو تھامے ہوئے ہاتھوں سے جگر ہم
غیر کو گر وہ پیار کریں گے اپنے لہو میں ہوں گے تر ہم
ڈال ہی دیں گے ان کے قدم پر کاٹ کر اپنے ہاتھ سے سر ہم
صلح ہوئی تو نالے کھینچے یوں کرتے ہیں سب کو خبر ہم
پیٹتے ہیں سینے کا ڈھنڈھورا دیتے ہیں دل بار دگر ہم
اور ملیں گے چھوڑ نہ دیں گے سن کے صدائے مرغ سحر ہم
حلقہ دونوں ہاتھ کا اپنے ڈال رکھیں گے گرد کمر ہم
دل کے اندر طور کے اوپر چشم صنم میں عین حرم میں
تیری ہی صورت تیری ہی مورت پوجنے جائیں تجھ کو کدھر ہم
راز چھپتے تو آغاز اچھا بھید کھلے تو انجام اچھا
مثل سکندر بھیس بدل کر جاتے ہیں بن کر نامہ بر ہم
اندازہ گو کر ہی چکے ہیں آ جاتی ہے مٹھی میں یہ
آج مگر بے پردہ کریں گے دیکھیں گے پتلی سی کمر ہم
لاتے ہی کچھ رنگ جوانی آنکھ سے یوں کیں آنکھ نے باتیں
آؤ دکھائیں سب کو گھاتیں شعبدہ گر تم جادوگر ہم
کہتی ہیں زلفیں مشکیں کس لیں کوئی جو ڈالے ہاتھ کمر میں
پھیل کے سوؤ ڈر کیا تم کو گشت کریں گے گرد کمر ہم
لطف بڑا ہو اور مزا ہو اس کے عوض گر آپ کو پائیں
بیٹھ کے اپنے گھر کے اندر ڈھونڈھ رہے ہیں یار کا گھر ہم
تم کو نزاکت اور خدا دے ہم کو لذت اور خدا دے
پائنچے تم چٹکی سے اٹھا لو تھامے ہوئے چلتے ہیں کمر ہم
اٹھتا جوبن جھکتی گردن دبتی باتیں رکتی گھاتیں
ہائے نہ کیوں سو جاں سے فدا ہوں ان چاروں پر اٹھ پھر ہم
سایہ بن کر ساتھ چلیں گے ساتھ پھریں گے ساتھ رہیں گے
اپنے گھر میں غیر کے دل میں جاؤ جدھر تم آئیں ادھر ہم
جلد تم اٹھو دوڑ کے آؤ ہم کو تھامو ہم کو سنبھالو
گرتے ہیں مثل اشک زمیں پر اٹھتے ہیں شکل درد جگر ہم
سب سے چھڑا کر لائے اڑا کر کیا نہ رکھیں گے دل میں چھپا کر
رہنے بسنے چلنے پھرنے تم کو خدا کا دیں گے گھر ہم
منہ جو کھلے گا رنج بڑھے گا ہم سے نہ بولو ہم کو نہ چھیڑو
کاہیدہ تن آزردہ جان آشفتہ دل خستہ جگر ہم
یہ تو چھپر کھٹ چھوٹا سا ہے پہلو میں تم سوؤ گے کیوں کر
آؤ لٹا لیں سینے پر ہم تم کو سلا لیں چھاتی پر ہم
رنج گر آیا ہو تو بھلا دے پیار بڑھا دے ہم سے ملا دے
ان کی نگہ سے تو گر تو چکے ہیں جائیں نہ یا رب دل سے اتر ہم
دیکھ کے ان کا جوبن ابھرا میں نے کہا یہ مال ہے اچھا
بولے وہ کیا تم لوٹ ہی لو گے گود میں یوں آ جائیں اگر ہم
ٹھہری ہے باہم لطف کی بازی پہلے جو پائے جیت اسی کی
وصل کی شب ہے ڈھونڈ رہے ہیں دل وہ ہمارا ان کی کمر ہم
روز نئے دل لائیں کہاں سے ایسے تحفے پائیں کہاں سے
چاٹ پڑی ہے تم کو دلوں کی لوٹنے جائیں کس کا گھر ہم
غیر کے بر میں ان کو دیکھا خاک میں جائے ایسا نظارہ
ہاتھ میں کمبخت آ نہیں سکتا توڑتے ورنہ تار نظر ہم
نشو و نما پائی ہے دکن میں قدر ہماری کیوں کر ہوگی
گھر کی مرغی دال برابر کس کو دکھائیں اپنا ہنر ہم
کیوں نہ کرے دیوانہ کسی کو شرم کی عادت حسن کی شوخی
ہو گئے مائلؔ دیکھ کے مائل اٹھتا جوبن جھکتی نظر ہم
غزل
ہو گئے مضطر دیکھتے ہی وہ ہلتی زلفیں پھرتی نظر ہم
احمد حسین مائل