ہو چکی اب شاعری لفظوں کا دفتر باندھ لو
تنگ ہو جائے زمیں تو اپنا بستر باندھ لو
دوش پر ایمان کی گٹھری ہو سر ہو یا نہ ہو
پیٹ خالی ہیں تو کیا پیٹوں پہ پتھر باندھ لو
عافیت چاہو تو جھک جاؤ سر پا پوش وقت
پھر یہ دستار فضیلت اپنے سر پر باندھ لو
قاضی الحاجات سے اک عہد باندھا تھا تو کیا
اب فقیہ شہر سے عہد مکرر باندھ لو
آشیانوں میں چھپے بیٹھے ہیں سب شاہین و زاغ
تم بھی شاعرؔ طائر تخئیل کے پر باندھ لو

غزل
ہو چکی اب شاعری لفظوں کا دفتر باندھ لو
حمایت علی شاعرؔ