ہو اگر مد نظر گلشن میں اے گلفام رقص
صورت بسمل دکھائے بلبل ناکام رقص
خانہ مقتل میں ہوتا ہے گماں فردوس کا
مور بن کر جب دکھاتی ہے تری صمصام رقص
وہ ہوا خواہ نسیم زلف ہوں میں تیرہ بخت
کیوں نہ مرقد پر کرے دود چراغ شام رقص
آرزو ہے التفات بے قرار سے مجھے
وصل میں اس کو دکھائے ہر رگ اندام رقص
دم نہیں اپنا تڑپ کر لوٹتا ہے ہجر میں
روح کو سکھلا رہا ہے موت کا پیغام رقص
اے شگفتہؔ وہ پری رو مجھ سے فرماتا ہے یہ
تم کو دکھلائیں گے اپنا آج زیر بام رقص
غزل
ہو اگر مد نظر گلشن میں اے گلفام رقص
منشی خیراتی لال شگفتہ