حصار کے سبھی نظام گرد گرد ہو گئے
ہم اپنے اپنے جسم میں خلا نورد ہو گئے
روانیاں صفر ہوئیں مسافتیں کھنڈر ہوئیں
نجات کے تمام شاہکار سرد ہو گئے
ہوائے جاں کا کیا میاں اٹھا گئی اڑا گئی
جمے نہ تھے بدن میں ہم کہ پھر سے گرد ہو گئے
عبارتوں میں آ بسی عجیب رت سکوت کی
قلم کی شاخ کے تمام برگ زرد ہو گئے
نہ پوچھ ہم سے کیا ہوا حیات کا ریاضؔ کا
دوام چھو گیا انہیں تو کرد کرد ہو گئے

غزل
حصار کے سبھی نظام گرد گرد ہو گئے
ریاض لطیف