حصار جسم سے آگے نکل گیا ہوتا
جنوں کی آگ میں دیوانہ جل گیا ہوتا
حیات ایک سہی کائنات ایک سہی
ہمارے عہد کا انساں بدل گیا ہوتا
ہوا کے زور نے پتھر اڑا دئے ہوتے
تمام شہر کو طوفاں نگل گیا ہوتا
میں اپنی نیند کسی گھر میں کیسے بھول آتا
وہ میرے خواب کے سانچے میں ڈھل گیا ہوتا
نہ پوچھ کیسا تھا منظر تری جدائی کا
فرشتہ ہوتا تو وہ بھی دہل گیا ہوتا
غزل
حصار جسم سے آگے نکل گیا ہوتا
فاروق نازکی