حصار جسم مرا توڑ پھوڑ ڈالے گا
ضرور کوئی مجھے قید سے چھڑا لے گا
بنا کے جس نے مجھے شاہکار پیش کیا
ہزار خامیاں مجھ میں وہی نکالے گا
میں اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کے چلتا ہوں
کوئی بہت سے بہت مجھ سے اور کیا لے گا
رکے ہوئے ہیں کئی کارواں لب دریا
کہ جیسے آگے کوئی راستہ نکالے گا
اک اجنبی کے لہو پر تھا سب کا حق راہیؔ
سنا ہے شہر کا ہر شخص خوں بہا لے گا
غزل
حصار جسم مرا توڑ پھوڑ ڈالے گا
غلام مرتضی راہی