EN हिंदी
حصار غم سے جو نکلے بھی تو کدھر آئے | شیح شیری
hisar-e-gham se jo nikle bhi to kidhar aae

غزل

حصار غم سے جو نکلے بھی تو کدھر آئے

خان رضوان

;

حصار غم سے جو نکلے بھی تو کدھر آئے
بہت ملال ہوا لوٹ کے جو گھر آئے

دکھائی کچھ نہ دے لیکن مری نگاہوں کو
ترے جمال کا منظر فقط نظر آئے

تمہارے در سے گزر جاؤں اور خبر بھی نہ ہو
مرے سفر میں اک ایسی بھی رہ گزر آئے

تمام عمر میں زد میں رہا ہوں راتوں کی
مرے خدا مرے حصے کی اب سحر آئے