EN हिंदी
ہراس ہے یہ ازل کا کہ زندگی کیا ہے | شیح شیری
hiras hai ye azal ka ki zindagi kya hai

غزل

ہراس ہے یہ ازل کا کہ زندگی کیا ہے

رشید کوثر فاروقی

;

ہراس ہے یہ ازل کا کہ زندگی کیا ہے
خدا نہیں ہے تو لوگو امید بھی کیا ہے

کسی کا رس کوئی پرواز رنگ کی منزل
عذار لالۂ صحرا کی تازگی کیا ہے

جو ہے وہ کچھ بھی نہیں جو نہیں وہ سب کچھ ہے
مرے خدا یہ تمنا کی ساحری کیا ہے

تمام حسن جہاں ناتمام ہے کہ نہیں
یہ اپسرا کا تصور یہ جل پری کیا ہے

سب اپنی سمت اشارہ کریں اگر پوچھو
کہ حق کدھر ہے زمانے میں راستی کیا ہے

دلوں نے عمر بھر آواز دی ہے سینوں سے
کسی نے جھوٹوں بھی پوچھا نہیں کبھی کیا ہے

یہ گھیر گھیر کے کیوں حال دل سناتے ہو
یہاں کسی کو کسی کی میاں پڑی کیا ہے

بتاؤ کون سے دانش کدے میں پڑھنے جائیں
کہاں نصاب میں یہ ہے کہ آدمی کیا ہے

کبھی کبھی کی ترش روئی جمال کی آن
یہ انگبیں میں بھی تھوڑی سی چاشنی کیا ہے

دیا تو خود مری ہم خواب نے بجھایا تھا
تو پھر یہ سیج پہ تاروں کی چھاؤں سی کیا ہے

ترے اچٹتے اشارے پہ وار دوں جاناں
ہزار زندگیاں ایک زندگی کیا ہے