ہندو ہے سکھ ہے مسلم ہے عیسائی ہے جو بھی ہے وہ وطن کا نگہبان ہے
یہ نہ دیکھو کہ وہ کام کرتا ہے کیا کام کچھ بھی کرے آخر انسان ہے
یہ چھوا چھوت ہے دشمنی کا سبب ہم وطن ہیں تو پھر ہے یہ تفریق کیوں
اک برہمن ہے اور ایک جن جات ہے وہ بھی انسان ہے وہ بھی انسان ہے
ہادیٔ دین جتنے بھی آئے یہاں ساری دنیا کو ان کا یہ پیغام تھا
نہیں انسانیت جس میں انساں نہیں جس میں انسانیت ہے وہ انسان ہے
کرشن آئے یہاں آئے منجی یہاں نانک آئے یہاں آئے رسل خدا
سبھی اک دوسرے سے محبت کریں ساری دنیا کو ان کا یہ فرمان ہے
یہ چھوا چھوت ہے اصل میں پر خطر اس کا اپنے وطن پر ہوا یہ اثر
لاکھوں مارے گئے صرف اس بات پر جس نے ایسا کیا ہے وہ نادان ہے
یہ مذاہب تو اپنی جگہ ہیں مگر اے نحیفؔ اس سے انسان ہے بے خبر
تو ہے انسان انسان سے پیار کر یہی انسان سچے کی پہچان ہے

غزل
ہندو ہے سکھ ہے مسلم ہے عیسائی ہے جو بھی ہے وہ وطن کا نگہبان ہے
جولیس نحیف دہلوی