حنا کے قوس قزح کے شجر کے کیا کیا رنگ
وہ آنکھ لائی ہے زنجیر کر کے کیا کیا رنگ
تجھے خبر نہیں پہلوئے موسم گل سے
چھلک رہے ہیں تری چشم تر کے کیا کیا رنگ
اتر رہے ہیں مری حیرتوں کے آنگن میں
فراز شب سے طلوع سحر کے کیا کیا رنگ
سر وصال ترے کیف و کم سے ظاہر ہیں
مری نظر پہ کف کوزہ گر کے کیا کیا رنگ
فضا خموش ہوئی پھر بھی رقص کرتے ہیں
نواح جاں میں کسی کی نظر کے کیا کیا رنگ
سفر میں ترک مسافت پہ دل ہوا مائل
مسافتوں میں کھلے اپنے گھر کے کیا کیا رنگ
گماں بہار کا ہوتا ہے اب خزاں پہ رضیؔ
چرا لیے ہیں خزاں نے شجر کے کیا کیا رنگ
غزل
حنا کے قوس قزح کے شجر کے کیا کیا رنگ
خواجہ رضی حیدر