حکایتوں سے فسانوں سے ریت اڑتی ہے
یہاں قدیم زمانوں سے ریت اڑتی ہے
نشیب جاں سے امڈتے ہیں تازہ رو دریا
بلند بام مکانوں سے ریت اڑتی ہے
لپک الگ ہے چمک اور ہے للک ہے جدا
یہ کیسی کیسی اٹھانوں سے ریت اڑتی ہے
یہاں کتابوں سے جھڑتی ہیں بھربھری صدیاں
اور ایک شیلف کے خانوں سے ریت اڑتی ہے
بہ نجد خاطر مجنوں ورائے شوق و جنوں
اڑے تو کتنے بہانوں سے ریت اڑتی ہے
ہماری نقش نمائی کو چاٹنے کے لیے
ترے تمام جہانوں سے ریت اڑتی ہے
یہیں کہیں تھے وہ لہریں اچھالنے والے
ہمارے دل میں زمانوں سے ریت اڑتی ہے

غزل
حکایتوں سے فسانوں سے ریت اڑتی ہے
خمار میرزادہ