ہجراں کی شب جو درد کے مارے اداس ہیں
ان کی نظر میں چاند ستارے اداس ہیں
آنکھیں وہ پھر گئیں کہ زمانہ الٹ گیا
جیتے تھے جو نظر کے سہارے اداس ہیں
کیا ہیر اب کہیں ہے نہ رانجھے کا جانشیں
کیوں اے چناب تیرے کنارے اداس ہیں
بہتر ہے ہم بھی چشم جہاں بیں کو موند لیں
دنیا کے اب تمام نظارے اداس ہیں
محرومؔ کیا کلام بھی اپنا فنا ہوا
کیوں ہم کو کھو کے دوست ہمارے اداس ہیں
غزل
ہجراں کی شب جو درد کے مارے اداس ہیں
تلوک چند محروم