EN हिंदी
ہجر و وصال یار کا پردہ اٹھا دیا | شیح شیری
hijr-o-visal-e-yar ka parda uTha diya

غزل

ہجر و وصال یار کا پردہ اٹھا دیا

فراق گورکھپوری

;

ہجر و وصال یار کا پردہ اٹھا دیا
خود بڑھ کے عشق نے مجھے میرا پتا دیا

گرد و غبار ہستئ فانی اڑا دیا
اے کیمیائے عشق مجھے کیا بنا دیا

وہ سامنے ہے اور نظر سے چھپا دیا
اے عشق‌ بے حجاب مجھے کیا دکھا دیا

وہ شان خامشی کہ بہاریں ہیں منتظر
وہ رنگ گفتگو کہ گلستاں بنا دیا

دم لے رہی تھیں حسن کی جب سحر‌ کاریاں
ان وقفہ‌ ہائے کفر کو ایماں بنا دیا

معلوم کچھ مجھی کو ہیں ان کی روانیاں
جن قطرہ ہائے اشک کو دریا بنا دیا

اک برق بے قرار تھی تمکین حسن بھی
جس وقت عشق کو غم صبر آزما دیا

ساقی مجھے بھی یاد ہیں وہ تشنہ کامیاں
جن کو حریف ساغر و مینا بنا دیا

معلوم ہے حقیقت غم ہائے روزگار
دنیا کو تیرے درد نے دنیا بنا دیا

اے شوخئ نگاہ کرم مدتوں کے بعد
خواب گران غم سے مجھے کیوں جگا دیا

کچھ شورشیں تغافل پنہاں میں تھیں جنہیں
ہنگامہ زار حشر تمنا بنا دیا

بڑھتا ہی جا رہا ہے جمال نظر فریب
حسن نظر کو حسن خود آرا بنا دیا

پھر دیکھنا نگاہ لڑی کس سے عشق کی
گر حسن نے حجاب تغافل اٹھا دیا

جب خون ہو چکا دل ہستی‌ٔ اعتبار
کچھ درد بچ رہے جنہیں انساں بنا دیا

گم کروۂ‌ وفور‌ غم انتظار ہوں
تو کیا چھپا کہ مجھ کو مجھی سے چھپا دیا

رات اب حریف صبح قیامت ہی کیوں نہ ہو
جو کچھ بھی ہو اس آنکھ کو اب تو جگا دیا

اب میں ہوں اور لطف و کرم کے تکلفات
یہ کیوں حجاب رنجش بے جا بنا دیا

تھی یوں تو شام ہجر مگر پچھلی رات کو
وہ درد اٹھا فراقؔ کہ میں مسکرا دیا