EN हिंदी
ہجر میں ہو گیا وصال کا کیا | شیح شیری
hijr mein ho gaya visal ka kya

غزل

ہجر میں ہو گیا وصال کا کیا

مضطر خیرآبادی

;

ہجر میں ہو گیا وصال کا کیا
خواب ہی بن گیا خیال کا کیا

خود نمائی پہ خاک ڈالو تم
دیکھنا شکل بے مثال کا کیا

تیری فرقت کے دن خدا کاٹے
ہو رہے گا کبھی وصال کا کیا

دل کے دینے میں عذر کس کو ہے
جان ہی دے رہے ہیں مال کا کیا

حال اس نے ہمارا پوچھا ہے
پوچھنا اب ہمارے حال کا کیا

وصل کی التجا پہ بگڑے کیوں
سن کے چپ ہو رہو سوال کا کیا

دور کی عاشقی گناہ نہیں
دیکھ لیتے ہیں دیکھ بھال کا کیا

زلف کو کیوں جکڑ کے باندھا ہے
اس نے بوسہ لیا تھا گال کا کیا

آج تم کیوں ملول بیٹھے ہو
وصل دن ہے مرے وصال کا کیا

جب کہا تم سے روز ملتا ہوں
ہنس کے کہنے لگے خیال کا کیا

قول کے وقت شرط‌ فرصت کیوں
دخل وعدے میں احتمال کا کیا

رنج دے کر جو خوش ہو اے مضطرؔ
اس کو صدمہ مرے ملال کا کیا