ہجر میں جو لی گئی تصویر ہے
یہ ہماری آخری تصویر ہے
موت بھرتی جا رہی ہے اپنے رنگ
زندگی مٹتی ہوئی تصویر ہے
تم جسے کہتے ہو جسموں کی قطار
اصل میں دیوار کی تصویر ہے
یار لوگوں سے گلے ملنا بھی کیا
کوئی پتھر ہے کوئی تصویر ہے
مٹ گئی تصویر پہلے عشق کی
سامنے اب دوسری تصویر ہے
جتنی تصویریں ہیں میرے سامنے
سب سے اچھی آپ کی تصویر ہے
کچھ نہیں بدلا تمہارے بعد بھی
زندگی تصویر تھی تصویر ہے
روح نے رکھا ہوا ہے سب بھرم
ورنہ ہر اک آدمی تصویر ہے
ڈھل گئی ہے پیاس میری نقش میں
یہ جو پانی پر بنی تصویر ہے
ہاتھ میں ٹکڑے خطوں کے ہیں فقیہ
آنکھ میں جلتی ہوئی تصویر ہے
غزل
ہجر میں جو لی گئی تصویر ہے
فقیہہ حیدر