ہجر کی شب میں بیاں کس سے میں روداد کروں
ان کا پردہ بھی رکھوں اپنی بھی فریاد کروں
آہ و نالہ نہ کروں اور نہ فریاد کروں
سوچتا ہوں میں انہیں کس طرح اب یاد کروں
محفل غیر میں وہ مجھ کو ملیں تو اے دل
کس طرح ذکر ترا اے دل ناشاد کروں
ماسوا تیرے نظر میں کوئی جچتا ہی نہیں
خانۂ دل میں تجھے کیوں نہ میں آباد کروں
زخم ہی زخم محبت ہیں مرے دل میں اگر
سوچتا ہوں کہ بیاں کیسے یہ روداد کروں
دل ازل ہی سے ہے مائل جو حسینوں کی طرف
کیوں محبت کے گھروندوں کو میں برباد کروں
چرخ بے مہر سے کم تو بھی نہیں ہے ظالم
آشیاں کیسے حوالے ترے صیاد کروں
کیسی مشکل سی ہے مشکل یہ نہ پوچھوں مجھ سے
کس طرح ذہن پریشاں کو میں آزاد کروں
شب کی تنہائی میں اکثر یہی سوچا ہے نظیرؔ
یاد کر کر کے تجھے دل کو تو اب شاد کروں
غزل
ہجر کی شب میں بیاں کس سے میں روداد کروں
نظیر رامپوری