ہجر کی شب گھڑی گھڑی دل سے یہی سوال ہے
جس کے خیال میں ہوں گم اس کو بھی کچھ خیال ہے
ہائے ری بے بسی شوق دل کا عجیب حال ہے
اس کا جواب سن چکا پھر بھی وہی سوال ہے
خواب و فسوں نہیں تو کیا دل یہ جنوں نہیں تو کیا
خلوت دوست اور تو تیرا کہاں خیال ہے
میں ترے در کو چھوڑ دوں شرط وفا کو توڑ دوں
سونچ خود اپنے دل میں تو کیا یہ مری مجال ہے
شرم سی نظر دل کی ہے اٹھتی نہیں نگاہ شوق
عشق کی منزلوں میں اک منزل انفعال ہے
چاہیں گے گر تو دل کی بات آپ ہی جان لیں گے وہ
منہ سے کہوں تو کیا کہوں شکل مری سوال ہے
بات انہیں کی مان لی جیسے میں ہی خطا پہ تھا
ان کو کہیں یہ شک نہ ہو دل میں مرے ملال ہے
اب تری جستجو ہوئی ہمت دل کے حسب ذوق
تو نے یہ جب سے کہہ دیا یہ طلب محال ہے
سطح مذاق بزم پر ملاؔ اتر کے آنا تو
اوروں کا جو کمال ہے تیرے لیے زوال ہے
غزل
ہجر کی شب گھڑی گھڑی دل سے یہی سوال ہے
آنند نرائن ملا