EN हिंदी
ہجر کی شب گھڑی گھڑی دل سے یہی سوال ہے | شیح شیری
hijr ki shab ghaDi ghaDi dil se yahi sawal hai

غزل

ہجر کی شب گھڑی گھڑی دل سے یہی سوال ہے

آنند نرائن ملا

;

ہجر کی شب گھڑی گھڑی دل سے یہی سوال ہے
جس کے خیال میں ہوں گم اس کو بھی کچھ خیال ہے

ہائے ری بے بسی شوق دل کا عجیب حال ہے
اس کا جواب سن چکا پھر بھی وہی سوال ہے

خواب و فسوں نہیں تو کیا دل یہ جنوں نہیں تو کیا
خلوت دوست اور تو تیرا کہاں خیال ہے

میں ترے در کو چھوڑ دوں شرط وفا کو توڑ دوں
سونچ خود اپنے دل میں تو کیا یہ مری مجال ہے

شرم سی نظر دل کی ہے اٹھتی نہیں نگاہ شوق
عشق کی منزلوں میں اک منزل انفعال ہے

چاہیں گے گر تو دل کی بات آپ ہی جان لیں گے وہ
منہ سے کہوں تو کیا کہوں شکل مری سوال ہے

بات انہیں کی مان لی جیسے میں ہی خطا پہ تھا
ان کو کہیں یہ شک نہ ہو دل میں مرے ملال ہے

اب تری جستجو ہوئی ہمت دل کے حسب ذوق
تو نے یہ جب سے کہہ دیا یہ طلب محال ہے

سطح مذاق بزم پر ملاؔ اتر کے آنا تو
اوروں کا جو کمال ہے تیرے لیے زوال ہے