EN हिंदी
ہجر کی رت ہے ترا روپ مگر سامنے ہے | شیح شیری
hijr ki rut hai tera rup magar samne hai

غزل

ہجر کی رت ہے ترا روپ مگر سامنے ہے

اطہر شکیل

;

ہجر کی رت ہے ترا روپ مگر سامنے ہے
ہاں وہی چہرہ وہی دیدۂ تر سامنے ہے

خوب ہے شہر اماں تیرا یہاں بھی اے جاں
جس سے ہم بچ کے چلے تھے وہ خطر سامنے ہے

اب نہیں کوئی یہاں حوصلہ دینے والا
پھر وہی دشت وہی شام سفر سامنے ہے

ساتھ چلتی تھیں ابھی ایک نگر کی چیخیں
اب کوئی دوسرا مجروح نگر سامنے ہے

اب بھی ہے دوری کا احساس کہ شل ہیں پاؤں
یوں تو میں شہر میں ہوں آپ کا گھر سامنے ہے

دھوپ کی تیز تپش اور سفر ہے در پیش
سائباں کوئی یہاں ہے نہ شجر سامنے ہے

اگلے لمحے کا بھلا کس کو یقیں ہے اطہرؔ
زندگی کیا ہے بس اک رقص شرر سامنے ہے