ہجر کی رت ہے ترا روپ مگر سامنے ہے
ہاں وہی چہرہ وہی دیدۂ تر سامنے ہے
خوب ہے شہر اماں تیرا یہاں بھی اے جاں
جس سے ہم بچ کے چلے تھے وہ خطر سامنے ہے
اب نہیں کوئی یہاں حوصلہ دینے والا
پھر وہی دشت وہی شام سفر سامنے ہے
ساتھ چلتی تھیں ابھی ایک نگر کی چیخیں
اب کوئی دوسرا مجروح نگر سامنے ہے
اب بھی ہے دوری کا احساس کہ شل ہیں پاؤں
یوں تو میں شہر میں ہوں آپ کا گھر سامنے ہے
دھوپ کی تیز تپش اور سفر ہے در پیش
سائباں کوئی یہاں ہے نہ شجر سامنے ہے
اگلے لمحے کا بھلا کس کو یقیں ہے اطہرؔ
زندگی کیا ہے بس اک رقص شرر سامنے ہے

غزل
ہجر کی رت ہے ترا روپ مگر سامنے ہے
اطہر شکیل