EN हिंदी
ہجر کے ہاتھ سے اب خاک پڑے جینے میں | شیح شیری
hijr ke hath se ab KHak paDe jine mein

غزل

ہجر کے ہاتھ سے اب خاک پڑے جینے میں

بہادر شاہ ظفر

;

ہجر کے ہاتھ سے اب خاک پڑے جینے میں
درد اک اور اٹھا آہ نیا سینے میں

خون دل پینے سے جو کچھ ہے حلاوت ہم کو
یہ مزا اور کسی کو نہیں مے پینے میں

دل کو کس شکل سے اپنے نہ مصفا رکھوں
جلوہ گر یار کی صورت ہے اس آئینے میں

اشک و لخت جگر آنکھوں میں نہیں ہیں میرے
ہیں بھرے لعل و گہر عشق کے گنجینے میں

شکل آئینہ ظفرؔ سے تو نہ رکھ دل میں خیال
کچھ مزا بھی ہے بھلا جان مری لینے میں