ہجر کے ہاتھ سے اب خاک پڑے جینے میں
درد اک اور اٹھا آہ نیا سینے میں
خون دل پینے سے جو کچھ ہے حلاوت ہم کو
یہ مزا اور کسی کو نہیں مے پینے میں
دل کو کس شکل سے اپنے نہ مصفا رکھوں
جلوہ گر یار کی صورت ہے اس آئینے میں
اشک و لخت جگر آنکھوں میں نہیں ہیں میرے
ہیں بھرے لعل و گہر عشق کے گنجینے میں
شکل آئینہ ظفرؔ سے تو نہ رکھ دل میں خیال
کچھ مزا بھی ہے بھلا جان مری لینے میں
غزل
ہجر کے ہاتھ سے اب خاک پڑے جینے میں
بہادر شاہ ظفر