EN हिंदी
ہجر کا قصہ بہت لمبا نہیں بس رات بھر ہے | شیح شیری
hijr ka qissa bahut lamba nahin bas raat bhar hai

غزل

ہجر کا قصہ بہت لمبا نہیں بس رات بھر ہے

شمیم حنفی

;

ہجر کا قصہ بہت لمبا نہیں بس رات بھر ہے
ایک سناٹا مگر چھایا ہوا احساس پر ہے

اک سمندر بے حسی کا ایک کشتی آرزو کی
ہائے کتنی مختصر لوگوں کی روداد سفر ہے

میں ازل سے چل رہا ہوں تھک گیا ہوں سوچتا ہوں
کیا تری دنیا میں ہر منزل نشان رہ گزر ہے

اس فصیل غم کو سر کرنے پہ بھی کیا مل سکے گا
ایک دیوار ہوا ہے ایک تیرا سنگ در ہے

ڈوبنے والے ستارے کو بھلا کب تک پکارے
زندگی کی رات کو سورج کے ہنس دینے کا ڈر ہے

دیکھ لے مجھ کو ابھی کچھ روشنی باقی ہے مجھ میں
شام تک اک ریت کا طوفان آنے کی خبر ہے